* کہنے کو تو سب اپنا ہے *
غزل
٭……ناصر کاظمی
اِس دنیا میں اپنا کیا ہے
کہنے کو تو سب اپنا ہے
یوں تو شبنم بھی دریا ہے
یوں تو دریا بھی پیاسا ہے
یوں تو ہیرا بھی ہے کنکر بھی
یوں تو مٹی بھی ہے سونا ہے
منہ دیکھے کی باتیں ہیں سب
کس نے کس کو یاد کیا ہے
تیرے ساتھ گئی وہ رونق!
اب اس شہر میں کیا رکھّا ہے
بات نہ کر صورت تو دکھا دے
تیرا اِس میں کیا جاتا ہے
دھیان کے آتشدان میں ناصرؔ
بجھے دنوں کا ڈھیر پڑا ہے
**** |