* کب تک یہ پل گنیں گے ترے انتظار کے *
کب تک یہ پل گنیں گے ترے انتظار کے
موسم گزر نہ جائیں ترے اعتبار کے
یہ رنج و غم، یہ درد بھی دولت سے کم نہیں
احسان لیجئیے نہ کسی غمگسار کے
دشت جنوں سے اٹھیں گے کیسے مرے قدم
موسم ٹہر گئے ہیں یہیں انتظار کے
پھر شہر آرزو کا، کہاں گم ہوا سراغ
رستے بچھڑ گئے ہیں کہاں کوئے یار کے
رگ رگ میں ہے جو آتش سیال موجزن
ہر اک نفس میں چبھتے ہیں کانٹے شرار کے
دیکھیں ذرا کہ موج بلا لے گئی کہاں
نشے میں ہیں حضور ابھی اقتدار کے
یہ کس مقام پر ہمیں لا کر ہے رکھ دیا
ہم جبر کے رہے نہ رہے اختیار کے
نے ہے، نہ یہ عزیز تھی پہلے کبھی ہمیں
رکھی ہے جان صدقے میں تیرے اتار کے
اک پل میں، اک جہاں سے تجھے بے خبر کرے
دیکھے کہاں ہیں معجزے تم نے وہ پیار کے
************ |