* کر دے گا منکشف جو زمانے پہ میرا فن *
کر دے گا منکشف جو زمانے پہ میرا فن
وہ ہے درون ذات، ابھی ہے حجاب میں
آمادہ ہو رہے ہیں بغاوت پہ بھر غریب
نسلیں مٹا دو ان کی چلو سد باب میں
وہ خشک پھول بھولنے دیتا نہیں تجھے
رکھا ہے آج تک جو چھپا کر کتاب میں
پانی کا اور چاند کا ہے رابطہ عجیب
ساحل پہ آ کے دیکھ شب ماہتاب میں
وہ جلوہ گر ہوا تھا عجب طمطراْق سے
کہنا تھا جو، میں بھول گئی اضطراب میں
ہر اک غزل تھی نام ترے، وائے مصلحت
کیا جانے کس کا نام لکھا انتساب میں
رنگت ہے اس کے چہرے کی ایسی، سنا تو ہے
میدہ ملا دیا ہے کسی نے شہاب میں
گہری وہ چشم ناز کہ ساگر بھی ہو خجل
وہ نور ہے کہ آگ لگے آفتاب میں
بجھتی ہے، پر کہاں ہے بجھی پیاس وصل کی
تشنہ لبی ہے لکھی محبت کے باب میں
دل کو لگن ہے اس کی، میسر نہیں ہے جو
وہ بات ہی کہاں ہے بھلا دستیاب میں
کیوں زعم ۔ زندگی میں بھلا مبتلا ہیں آپ
ہستی کی دیکھیئے تو حقیقت حباب میں
پلکوں پہ لرزاں اشکوں سے، منظر عجب ہوا
’’ اک عکس ہے کہ کانپ رہا ہے شراب میں ‘‘
اب اس سے بڑھ کے مرتبہ درکار ہے کسے
رطب للساں ہوں شان۔ شہہ بو تراب میں
************** |