* بد لحاظی قوم کا کردار ہے *
بد لحاظی قوم کا کردار ہے
اب کہاں محفوظ یہ دستار ہے
پائوں کے ان آبلوں کی خیر ہو
رستہ منزل کا بہت پر خار ہے
دیکھیے دکھلائے گا کل کیا ہمیں
ہر گزرتا لمحہ کج رفتار ہے
دل نشاط ۔ غم کا عادی ہو چکا
ایذا جو کو رنج ہی درکار ہے
عشق کو کہتے ہو تم بار ۔ گراں
سچ کہوں تو پھول سا یہ بار ہے
ہر کسی پہ دل یہ آنے کا نہیں
پیار کا میرے بھی اک معیار ہے
خامشی انکار گو ہوتی نہیں
پر سمجھ لیں کیسے یہ اقرار ہے
کیا عجب زندان ہے، زندان ۔ ذات
نہ کوئی در، نہ کوئی دیوار ہے
آئینے میں حیرتیں اتری ہیں کیوں
کس کی زیبائی سے یہ سرشار ہے
کیوں زباں ہو حرف کی محتاج، جب
آنکھ سا غماز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود اظہار ہے
جس سے امیدیں بہت تھیں، زندگی
’’کیا کروں مجھ سے بہت بےزار ہے
********* |