* چراغ دل کو، سر رہگزار کرنے دے *
چراغ دل کو، سر رہگزار کرنے دے
ضرور آئے گا وہ، انتظار کرنے دے
گزر گئی ہیں، پہ شائد وہ لوٹ آئیں کبھی
گئی رتوں پہ ہمیں اعتبار کرنے دے
پھر آج دل میں لگن جاگتی ہے قربت کی
پھر آج ہجر کے دریا کو پار کرنے دے
وطن میں تھے، تو بہاروں کا پیرھن تھا نصیب
ہیں ہجرتوں میں، سو تن کو غبار کرنے دے
ذرا سا عجز، تلافی کا آج موقع ہے
وہ آ گیا ہے، دل۔ شرمسار، کرنے دے
سمیٹنے کا تجھے معجزہ ملا ہے، مجھے
ہنر بکھرنے کا پھر اختیار کرنے دے
یہ نخل جاں کہ ترے لمس سے ہرا ہو جائے
کھلا دے پھول، اسے برگ و بار کرنے دے
****** |