* غبارِ راہ کجا نقش پا نہیں ملتا *
نظر جعفری
غزل
غبارِ راہ کجا نقش پا نہیں ملتا
رہِ طلب میں کوئی رہنما نہیں ملتا
دیارِ شوق میں مت پوچھئے کسی کا پتہ
یہاں کسی کو کسی کاپتہ نہیں ملتا
فلک سے ٹوٹ کے گرتا ہوا ستارہ ہے
وہ اشک غم جسے دامن ترا نہیں ملتا
گذر گئی ہے کبھی کوئے یار سے شاید
بہت دنوں سے مزاج صبا نہیں ملتا
نہ جانے شہر کے بیگانے لوگ کیا ہوں گے
جب آشنا سے یہاں آشنا نہیں ملتا
گداز جاں غم دل سوز عشق رنج حیات
خلوص دل ہو سلامت تو کیا نہیں ملتا
کرم کی ایک نظر بھی دوا نہیں بنتی
مذاق درد کا ہم کو صلہ نہیں ملتا
+++
|