* خوشی پہ غم کا تو غم پر خوشی کا دھوکا & *
نظر جعفری
غزل
خوشی پہ غم کا تو غم پر خوشی کا دھوکا ہے
اسی فریب مسلسل کا نام دنیا ہے
مٹا دیا ہے ترے التفات نے ہم کو
زمانے بھر میں تری بے رخی کا چرچاہے
طلب متاعِ کم وبیش سے ہے مستغنی
جو تشنگی ہو تو قطرہ بھی ایک دریا ہے
نظر میں آئی ہے کتنے گھروں کی تاریکی
فلک پہ جب مہ وکہکشاں کو دیکھا ہے
کھلے ہوئے ہیں ابھی تو دل ونگاہ میں پھول
چلے بھی آئو کہ موسم بدلنے والا ہے
شگفتگی ہے کہ شبنم بہار ہے کہ خزاں
ہر اک سے پوچھ رہاہوں کہ زندگی کیا ہے
تمام زخم تمنا ابھرا بھرآئے
نظر سے کس نے مرے دل کاحال پوچھاہے
نظر کہا ں ہیں اب اہل نظر زمانے میں
ہنر کے ساتھ مذاق ہنر بھی رسواہے
+++
|