لوگوں کے درمیاں وہ اکیلا لگا مجھے
تاروں کے ساتھ چاند بھی تنہا لگا مجھے
خوں رنگ موسموں سے تھی نسبت عجیب سی
سایہ بھی اک چنار کا اچھا لگا مجھے
جس نے بلندیوں سے گرایا تھا وقتِ شام
دیکھا پلٹ کے اس کو تو اپنا لگا مجھے
جس کے مزاج میں سبھی رنگوں کا زھر تھا
وہ سانپ تو نہیں تھا پر ایسا لگا مجھے
لفظوں کے پیرھن پہ تھی خوشبو لگی ھوئی
اس کا ہر ایک لفظ ھی جھوٹا لگا مجھے
چاروں طرف مکاں کے تھا پانی رکا ھوا
بارش کے بعد شہر بھی دریا لگا مجھے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸