* ہر بار تجھے چھوکے یہ محسوس ہوا ہے *
ہر بار تجھے چھوکے یہ محسوس ہوا ہے
شاید کہ تو مٹی نہیں پتھر کا بنا ہے
تو مجھ کو بھلا دے گا یہ ممکن تو ہے لیکن
میں تجھ کو بھلادوں یہ بھلا کیسے روا ہے
ہے میرے لئے جان کا سودا تری الفت
اس روگ کی دنیا میں کہاں کوئی دوا ہے
وہ کون ہے جو ہم کو الگ آج کہے گا
میں جب سے بسی تجھ میں ہوں تو مجھ میں بسا ہے
بیکار مری جان کو تم پوچھ رہے ہو
بیمار کا کیا حال ہے اچھا نہ برا ہے
کیوں یاد بھی تیری نہیں آئی کئی دن سے
اب تجھ سے خفا میں ہوں کہ تو مجھ سے خفا ہے
جھونکے سے چلے آتے ہیں باردو کی بو کے
گلشن میں چلی ہے جو ہوا کیسی ہوا ہے
جی لوں گی جدائی میں نگارؔ اب کسی صورت
تا عمر رہے شاد وہ، یہ میری دعا ہے
************** |