* اشک کی شکل میں ہم رخت سفر رکھتے ہیں *
اشک کی شکل میں ہم رخت سفر رکھتے ہیں
جادۂ عشق میں یہ لعل و گہر رکھتے ہیں
آسماں سر پہ نہ نظروں میں شجر رکھتے ہیں
ہم کڑی دھوپ ہی تاحدِ نظر رکھتے ہیں
ہاتھ میں کاسہ لئے آتے ہیں سائل اکثر
ہم کھلا اُن کے لئے روز ہی در رکھتے ہیں
ہم سے جینے کی دعائیں تو نہ مانگو لوگو
ہم نہیں وہ جو دعائوں میں اثر رکھتے ہیں
اپنی خودداری زباں کھولنے دیتی ہی نہیں
ہم چھپائے ہوئے سب عیب و ہنر رکھتے ہیں
خاک ہوجائیں گے ہم اپنے جنوں کے ہاتھوں
اشک رکھتے ہیں کہ دامن میں شرر رکھتے ہیں
آسمانوں کو کہیں چیر کے رکھ دیں نہ نگارؔ
درد میں ڈوبے ہوئے نالے اثر رکھتے ہیں
************** |