* سرد موسم کی ہوا جب بھی صدا دیتی ہے *
سرد موسم کی ہوا جب بھی صدا دیتی ہے
کتنے سوئے ہوئے خوابوں کو جگا دیتی ہے
میں تو سمجھی تھی کہ میں بھول گئی ہوں اُس کو
فون کی گھنٹی مگر دل کو ہلا دیتی ہے
لب پہ اقرار نہ آئے تو کوئی بات نہیں
آنکھ تیری مجھے ہر بات بتا دیتی ہے
یاد تیری تو شب و روز ہی ناگن بن کر
میرے ماضی کو مرے سامنے لادیتی ہے
بہتے آنسو مرے رخسار کو دھو دیتے ہیں
وصل کی شب مجھے ہر بار رُلا دیتی ہے
دنیا کی حوادث تو اکثر مرے دوست
ایک رنگ مرے چہرے سے اڑا دیتی ہے
زندگی دیکھئے کیا رنگ دکھاتی ہے نگارؔ
زندہ رہنے کی مری ماں جو دعا دیتی ہے
************** |