* سمٹی ہوئی یادوں کو پھر آج بکھرنا ہ *
سمٹی ہوئی یادوں کو پھر آج بکھرنا ہے
جاتے ہوئے لمحوں کو کچھ دیر ٹھہرنا ہے
بہتی ہوئی موجوں کو منجدھار میں مت روکو
چلتی ہی چلی جائیں، اُن کو تو گزرنا ہے
عشق آگ کا دریا ہے کیوں ہم کو ڈراتے ہو
اس آگ کے دریا میں ہم کو تو اترنا ہے
کیوں ڈوبنے والوں کا ماتم ہے زمانے میں
اُن ڈوبنے والوں کو اک دن تو ابھرنا ہے
بیتے ہوئے وہ لمحے جو تم سے ہیں وابستہ
کچھ بھول بھی جانا ہے کچھ یاد بھی کرنا ہے
بازو ہیں سلامت تو اوروں کا بھروسہ کیا
جو کام ہمارا ہے خود ہی ہمیں کرنا ہے
************* |