* پل بھر رہی جو ساتھ تو پل میں بدل گئی *
پل بھر رہی جو ساتھ تو پل میں بدل گئی
دنیا مرے خلاف عجب چال چل گئی
وہ دھوپ دھوپ چل کے بھی شاداب ہوگیا
میں بدنصیب پیڑ کے سائے میں جل گئی
تم سے ہوئے جو دور تو جینا محال تھا
تم پاس آگئے تو طبیعت بہل گئی
جاری مرا سفر تھا ترے آستاں کی سمت
جب پائوں تھک گئے تو میں سر کے بل گئی
افسردگی تھی چھائی ہوئی میری روح پر
دیکھا جو آپ نے تو طبیعت مچل گئی
مجھ کو اداس دیکھ کر جی اُس کا خوش ہوا
میں جو ذرا ہنسی تو وہ کمبخت جل گئی
منڈلا رہی تھی موت مرے سر پہ اے نگارؔ
لیکن وہ آگئے تو قضا سر سے ٹل گئی
************ |