* جہاں تک نظر ڈالوں کچھ بھی نہیں ہے *
جہاں تک نظر ڈالوں کچھ بھی نہیں ہے
مرے آسماں کی نہ کوئی زمیں نہیں ہے
بظاہر مکاں میرے دل کا ہے خالی
مگر کوئی کوئی ہے جو کہ اس میں مکیں ہے
مری راہ میں پھول تم نے بچھائے
مگر ان پہ چلنے میں راحت نہیں ہے
وہ چہرہ جو رہتا تھا آنکھوں میں میری
مجھے اب دکھائی وہ دیتا نہیں ہے
ترے سامنے اک کڑا امتحاں ہے
ترے آستاں پر ہماری جبیں ہے
کبھی پاس رہ کر بہت دور تھا وہ
کبھی دور جاکر وہ دل کے قریں ہے
نگارؔ آج محسوس ہوتا ہے کچھ یوں
کہ میں سب کی ہوں میرا کوئی نہیں ہے
*********** |