* وہ خضر کی صورت میں یوں مجھ کو نظر آت *
وہ خضر کی صورت میں یوں مجھ کو نظر آتا ہے
میں جب بھی بھٹکتی ہوں وہ راہ دکھاتا ہے
خوابوں میں مرے آکے وہ مجھ کو ستاتا ہے
جب روٹھ میں جاتی ہوں پھر مجھ کو مناتا ہے
اس وقت غمِ دل کا احساس نہیں ہوتا
جب جامِ محبت وہ آنکھوں سے پلاتا ہے
کس طرح بھلا اس کو میں دشمنِ جاں سمجھوں
ہر وقت مسیحا وہ مجھ کو نظر آتا ہے
معلوم کیا تم کو ہے کہ آدمی دنیا میں
کس سمت سے آتا ہے کس سمت کو جاتا ہے
تکتا ہے مجھ پہلے گستاخ نگاہوں سے
پھر مجھ کو محبت کے آداب سکھاتا ہے
قربان نہ کیوں جائیں ہم اُس کی ادائوں پر
نظریں بھی ملاتا ہے آنکھیں بھی چراتا ہے
ہم شکر ادا دل سے کرتے ہیں نگارؔ اس کا
دم بھر کے لئے کوئی جب ساتھ نبھاتا ہے
*************** |