* آنکھوں میں جو آنسو ہے دل سے ہی تو نک *
آنکھوں میں جو آنسو ہے دل سے ہی تو نکلا ہے
تم جو بھی اسے سمجھو پر زخم تو گہرا ہے
کھیلے تو کہاں جاکر اس سوچ میں بچہ ہے
چھت ہے نہ کوئی آنگن بس چھوٹا سا کمرہ ہے
کیا جانے ہوا میں کب پر اس کے بکھر جائیں
سہما ہوا پیڑوں پر اک زخمی پرندہ ہے
اب سرد ہوائیں بھی جھلسانے لگیں مجھ کو
کیوں سایہ ترے گھر کا اس طرح سلگتا ہے
کچھ پھول کھلاتے ہیں اب گرکے مرے آنسو
آنکھوں میں بہاروں کے کیا خواب سنہرا ہے
کوئی جاکے نگارؔ اس کو یہ مژدہ سنا آئے
جھرمٹ میں ستاروں کے اک چاند اکیلا ہے
************ |