* پوچھا ہے ترا نام ہر اک برگ و شجر سے *
پوچھا ہے ترا نام ہر اک برگ و شجر سے
تیرا نہ پتہ پایا کسی راہ گزر سے
ہوجاتا ہے یہ سارے زمانے پہ ہی ظاہر
چھپتا ہے کہاں عشق زمانے کی نظر سے
چنگاری جو ہوتی ہے دبی راکھ کے اندر
وہ شعلہ بھی بن سکتی ہے معمولی شرر سے
شاید مری تسکین کا ذریعہ بھی نکل آتا
خط میں جو تمہیں لکھ پاتی اگر خونِ جگر سے
دنیا کی نظر عیب پہ رہتی ہے ہمیشہ
پوشیدہ ہنر رہتا ہے کب دنیا کی نظر سے
واللہ معطر ہے مرے دل کا چمن آج
گزرا ہے کوئی دل کی مرے راہ گزر سے
بیزار نظر آتا تھا مجھ سے جو ہمیشہ
دیکھا ہے نگارؔ اُس نے محبت کی نظر سے
********** |