* نہ جانے کیسا یہ طوفاں اٹھا زمانے م *
نہ جانے کیسا یہ طوفاں اٹھا زمانے میں
چھپے ہیں لوگ سبھی اپنے آشیانے میں
ہمارا ناز بھلا کس طرح اٹھاتے وہ
کہ ہم تو رہ گئے ان کے ہی ناز اٹھانے میں
قرار دل کو کہیں بھی نہیں ہے اب حاصل
نہ آشیانے کے باہر نہ آشیانے میں
وہ ایسے روٹھ گئے تھے کہ کیا بتائیں ہم
گزر گیا ہے زمانہ انہیں منانے میں
ہزاروں طرح کی الجھن ہے کیا بتائوں میں
کہ کس طرح سے میں زندہ ہوں اس زمانے میں
مرے ندیم اسے سن کے کیا کروگے تم
نہ کوئی لطف ہے باقی مرے فسانے میں
منانے والا اگر کوئی ہو تو مت پوچھو
مزہ کچھ اور ہی آتا ہے روٹھ جانے میں
میں اپنے لب پہ تبسم کہاں سے لائوں نگارؔ
کلیجہ کانپتا ہے میرا مسکرانے میں
*********** |