* خوشیوں کا کوئی لمحہ پلٹ کر کبھی آئ *
خوشیوں کا کوئی لمحہ پلٹ کر کبھی آئے
بیٹھی ہوں یہی سوچ کے میں آس لگائے
کیا جانے کوئی پل مجھے کب ضرب لگائے
تربت پہ مری آکے کوئی پھول چڑھائے
بیتا ہوا لمحہ ہے مرے ذہن میں محفوظ
میں کیسے بھلائوں مرا دل بھول نہ پائے
خوابوں میں ستانے وہ چلے آتے ہیں اکثر
بستر سے چپک جاتی ہوں میں شرم سے ہائے
لگتا ہے کہ وہ دل سے بھلا بیٹھا ہے مجھ کو
لیکن مرا دل اُس کو بھلا کیسے بھلائے
ماضی کے دریچے سے اب آتا ہے نظر وہ
رہتی ہوں نگارؔ ان کو میں آنکھوں میں بسائے
********************************** |