* تحفہ تو پیار کا مجھے دل سے قبول تھا *
تحفہ تو پیار کا مجھے دل سے قبول تھا
مجھ کو تھی کیا خبر کہ وہ کاغذ کا پھول تھا
ہم نے بچھائے پھول سدا جس کی راہ میں
اُس نے ہماری راہ میں بویا ببول تھا
ماضی کے آئینے پہ تھی اک گرد سی جمی
میرے لئے تو جھانکنا اُس میں فضول تھا
کی تم نے بے وفائی تمہارا یہ تھا اصول
میں نے وفا نبھائی یہ میرا اصول تھا
حالات یوں نہ تھے کہ میں کچھ بھی نہ کرسکوں
پر اس کی ضد تھی ایسی کہ منانا فضول تھا
تھی ابتدائے عشق تو وہ دن بھی تھے کہ جب
مغموم مجھ کو دیکھ کے وہ بھی ملول تھا
دنیا نے جو کہا، وہ سنا سن کے چپ رہی
میں کیسے مان لیتی کہ وہ بے اصول تھا
اب اُس کی بے وفائی کو میں کیا کہوں کہ وہ
جس کو مسل گیا مرے جوڑے کا پھول تھا
دنیا میں جب کوئی بھی کسی کا نہیں نگارؔ
اُس سے بھی چاہنے کا تقاضا فضول تھا
****************** |