* اب کہیں رشتۂ الفت نہیں رہنے دے گی *
اب کہیں رشتۂ الفت نہیں رہنے دے گی
’’متحد ہم کو سیاست نہیں رہنے دے گی‘‘
سر کی پگڑی سرِ بازار اچھالے گی ضرور
نئی تہذیب فضیلت نہیں رہنے دے گی
مجھ کو لے آئے کہاں آج کے انسانوں میں
اس جگہ میری شرافت نہیں رہنے دے گی
آئینہ عکس مرا کیسا دکھاتا ہے مجھے
میری صورت مری عظمت نہیں رہنے دے گی
اُس کو پانے کی ہوس میں ہے کسی قتل کی فکر
تجھ میں باقی یہ شرافت نہیں رہنے دے گی
آج اٹھی ہے جو آندھی تو کسی سمت میں بھی
دھوپ کیسی کہ حرارت نہیں رہنے دے گی
جاکے بس جائیں گے ہم لوگ ستاروں میں کہیں
شہر میں بوئے کثافت نہیں رہنے دے گی
اب تو کچھ اور بھی کرنا ہے کہ دنیا میں فقط
پانچ وقتوں کی ریاضت نہیں رہنے دے گی
لوٹ آئوگے اگر تم تو تمہاری یہ نگارؔ
اپنے ہونٹوں پہ شکایت نہیں رہنے دے گی
************** |