* وہ سیہ زلفوں کو اپنی اس طرح بکھرا گ *
وہ سیہ زلفوں کو اپنی اس طرح بکھرا گیا
سارے عالم میں اندھیرا ہی اندھیرا چھاگیا
جھانکتا تھا مجھ کو چھپ کے بادلوں کی اوٹ سے
جب نظر مجھ سے ملی تو چاند بھی شرما گیا
یوں ہوا مجھ سے مخاطب کل وہ میرے خواب میں
سُن کے اُس کی بات ماتھے پر پسینہ آگیا
صبح تھی کاندھے پہ اپنے رات کا لاشہ لئے
پھیلیں جب سورج کی کرنیں دن کا جادو چھاگیا
ٹوٹ کر ڈالی سے ٹپکا پھول تو دیکھو نگارؔ
خوشبو اپنی جاتے جاتے ہر طرف بکھرا گیا
**********88888 |