* خود جو شیشے کا گھر بناتے ہیں *
خود جو شیشے کا گھر بناتے ہیں
ہاتھ میں سنگ کیوں اٹھاتے ہیں
ایک دن تو سبھی کو مرنا ہے
موت سے کیوں ہمیں ڈراتے ہیں
جو سہارا بنے بڑھاپے میں
پیڑ ایسا کہاں لگاتے ہیں
سجدہ کرتے ہیں وہ مزاروں پر
خود کو مومن مگر بتاتے ہیں
ہم تہی دست ہی رہے اکثر
جیسے آئے تھے ویسے جاتے ہیں
دوسروں کو جو دے رہے ہیں فریب
خود ہی اکثر فریب کھاتے ہیں
خوف جن کو ہے ٹوٹ جانے کا
ریت پر کیوں محل بناتے ہیں
یوں تو رہتے ہیں وہ زمیں پہ مگر
آسماں کی خبر بھی لاتے ہیں
چاند تاروں کی بستیوں سے نگارؔ
لوگ مایوس لوٹ آتے ہیں
************* |