* رہتی تھی جس کے دل میں وہ دلبر بدل گی *
رہتی تھی جس کے دل میں وہ دلبر بدل گیا
پھر دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل گیا
بالکل تمہاری یاد کا عالم وہی ہے آج
جب تم نہیں رہے تو یہ بستر بدل گیا
جور و جفا کا طور تو بدلا نہیں ذرا
یہ اور بات ہے کہ ستمگر بدل گیا
لے کر چلا تھا مجھ کو جو منزل کی راہ پر
کچھ دیر ساتھ چل کے وہ رہبر بدل گیا
چشمِ وفا سے دیکھا جب اُس نے مری طرف
جو ہاتھ میں تھا میرے وہ پتھر بدل گیا
انسان کے بھی آج کئی روپ ہیں نگارؔ
بدلی ہے آستیں کہیں خنجر بدل گیا
************* |