* دریا بتا رہا ہے یہ طوفان کا مزاج *
دریا بتا رہا ہے یہ طوفان کا مزاج
اس میں کہیں سکوت ذرا بھی نہیں ہے آج
پیٹ بھرنے کو ہمیں ملتا نہیں جب اناج
پھر کہاں پتوار ، کیا رسم و رواج
بازار ظلم و تشدد کا گرم ہے
چاروں طرف ہے کون سی شیطانیت کا راج
اک لمحہ بھی سکون میسر نہیں ہمیں
دنیا یہ کس طرح کی ہے کیسا ہے یہ سماج
ناز تھا اپنی جواں مردی کا جن کو کل تلک
رہ گئے ہیں ہل کے وہ سب ایک ہی جھٹکے سے آج
آپ کا پیشہ الگ ہے شعر گوئی سے نگارؔ
بن گیا ہے کس طرح پھر شاعری کا یہ مزاج
*************** |