* آگ اپنوں نے لگائی تھی کبھی *
آگ اپنوں نے لگائی تھی کبھی
میرے لب پہ بھی دہائی تھی کبھی
آج اندھیرے میں ہوں بیٹھی لیکن
روشنی میں تو نہائی تھی کبھی
آج پھر دوست وہی ہے جس نے
اپنی شمشیر چھپائی تھی کبھی
ایک وعدہ بھی وفا ہو نہ سکا
شرم بھی اس کو کہاں آئی تھی کبھی
آج پربت بھی ہے قد میں چھوٹا
دیکھے اس کو جو رائی تھی کبھی
جس کو جو چاہا بنایا اس نے
اُس کے بس میں بھی خدائی تھی کبھی
جوڑ کر رشتۂ دل میں نے نگارؔ
رسم دنیا کی نبھائی تھی کبھی
*************** |