* میرے شیشے کے دل کو اُس نے بے رحمی سے & *
میرے شیشے کے دل کو اُس نے بے رحمی سے توڑا ہے
مگر پھر بعد میں آکر اُس نے ہاتھ جوڑا ہے
لہو سے کھیلنا جاکر پھر اب کے بار تم ہولی
تمہارے واسطے ہم نے لہو دل کا نچوڑا ہے
لگی تھی چپ زباں پہ کچھ بھی میں کہنے نہیں پائی
بھری محفل میں اس نے آج میرے دل کو توڑا ہے
زباں سے چیخ نکلی ہے نہ ہیں آنسو ہی آنکھوں میں
پکڑ کر ہاتھ میرا اُس نے بے رحمی سے موڑا ہے
نگارؔ اب کیا کہے مجبوریاں تجھ سے کہ اُس نے کیوں
تری یادوں کے آنگن کو سرِ بازار توڑا ہے
************* |