* کھویا ہوا ہے کچھ نہ ہی پایا ہوا ہے ک *
کھویا ہوا ہے کچھ نہ ہی پایا ہوا ہے کچھ
میری رگوں میں دور تک الجھا ہوا ہے کچھ
دم توڑ ہی چکا تھا جو اُس کا حسین خواب
میری ہی کوششوں سے وہ زندہ ہوا ہے کچھ
آئیں نہ آنے والے تو کیسے کٹے گی رات
موسم کے اس اشارے کا اُن کو پتہ ہے کچھ
شبنم کی بارشوں میں نہا تو رہے ہیں ہم
لیکن ہمارا پھول سا تن جل رہا ہے کچھ
بے رحم آسماں سے کسی کو امید کیا
میں اس پہ شکر کرتی ہوں جو بھی ملا ہے کچھ
سورج کی روشنی میں ستارے کہاں نگارؔ
لیکن ہماری آنکھ میں منظر چھپا ہے کچھ
**************** |