* لالچ نہیں اس دل کو تھوڑے میں گزارا *
لالچ نہیں اس دل کو تھوڑے میں گزارا ہے
بس نام ترا لے کر مرنا بھی گوارا ہے
اس بات پہ کیوں جھگڑا جو بھی ہے تمہارا ہے
یہ جاں بھی تمہاری ہے یہ دل بھی تمہارا ہے
اس کے بھی حسیں دل میں ہاں پیار ہمارا ہے
میں رات کی رانی ہوں وہ صبح کا تارا ہے
خود پہ نہ یوں اترائو بس اتنا سمجھ لو تم
دل میں نے دیا تم کو احسان ہمارا ہے
دے دے کے تسلی ہی اس دل کو سنبھالو اب
اب پار اتر جائیں نزدیک کنارا ہے
سادھو بنے بیٹھے ہو کیوں سچ کو چھپاکر تم
مجرم ہے نہیں کوئی سب کھیل تمہارا ہے
ایسا بھی کوئی لمحہ آیا ہے نگارؔ اکثر
خود کو ہے کیا آئینہ اور خود کو سنوارا ہے
*************** |