* نکھر آئی نکھار آئی ، سنور آئی، سنو *
نکھر آئی نکھار آئی ، سنور آئی، سنوار آئی
گلوں کی زندگی لے کر گلستاں میں بہار آئی
مشیت کو نہیں منظور دو دن پارسا رکھنا
ادھر کی میں نے توبہ اور ادھر فوراً بہار آئی
اسیرانِ قفس کو واسطہ کیا ان جھمیلوں سے
چمن میں کب خزاں آئی چمن میں کب بہار آئی
مجھے گلشن سے اے جوش جنوں صحرا کو اب لے چل
یہاں اس کے سوا کیا ہے خزاں آئی بہار آئی
ہمیشہ بادہ خواروں پر خدا کو مہر باں دیکھا
جہاں بیٹھے گھٹا اُٹھی جہاں پہنچے بہار آئی
٭٭٭
|