* کب پایا تھا پیار میں اُس کا جو کھوت *
غزل
کب پایا تھا پیار میں اُس کا جو کھوتی
اور کھوکر تنہائی میں اُس کو روتی
ساگر کے لہجے میں کچھ اپناپن تھا
رہتا اُس کی گود میں ورنہ کیوں موتی
قسمت پہ میں کرتی اپنی ناز بہت
اُس کے دل میں میری الفت گر ہوتی
چاند کی پاکیزہ کرنیں اور وہ ہوتا
اُس کی بانہوں پر سر رکھ کر میں سوتی
میری خوشیاں سمٹ گئیں جس پیکر میں
کاش میں اُس کی خوشیوں کا مرکز ہوتی
تنہائی کا سایہ مجھ کو کیوں ڈستا
پاس مرے تیری تصویر اگر ہوتی
کاش خدا نصرتؔ کو یہ قدرت دیتا
پیار کے بیج وہ دونوں کے دل میں بوتی
نصرتؔ فاطمہ
Reyaz Manzil, Karam Ganj
Laheria Sarai
Darbhanga (Bihar)
Ph: 06272-256167
بشکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
………………………
|