* وہ میرے خواب اگر خواب کے برابر ہے *
وہ میرے خواب اگر خواب کے برابر ہے
تو یعنی مہر بھی مہتاب کے برابر ہے
وفا کی بات کہاں بات تھی مروّت کی
سو اب یہ جنس بھی نایاب کے برابر ہے
کوئی نہیں ہے کہیں صرف میں ہی میں زندہ
یہ ذائقہ مجھے اسباب کے برابر ہے
خود اپنا قامتِ زیبا ہے میرا اِک اِک یار
ہر اِک رقیب کے احباب کے برابر ہے
طوافِ ذات میں جو شمع تھا وہ پروانہ
بُجھا تو شعلئہ بے تاب کے برابر ہے
جو عشق کھول نہ پائے قبائے ذات کے بند
زمانہ ساز ہے آداب کے برابر ہے
اگر ہوں کچّے گھروندوں میں آدمی آباد
تو ایک ابر بھی سیلاب کے برابر ہے
شکستہ ناؤ ہو اور لوگ بھی شکستہ ہوں
تو ایک لہر بھی گرداب کے برابر ہے
یہ ساحلوں سے خزانہ چُرانے والے لوگ
سمجھ رہے ہیں تہہِ آب کے برابر ہے
ِ
|