* دل کی پاتال سرا سے آئی *
دل کی پاتال سرا سے آئی
دولتِ درد دُعا سے آئی
اب کے پامال زمینوں پہ بہار
اور ہی آب و ہوا سے آئی
جان بیمار میں اُس کے آخر
اُس کے ہی دستِ شفا سے آئی
ہم میں اِک اور بقا کی صُورت
ہم پہ اِک اور فنا سے آئی
ہم نے ہر شے کو الگ سے دیکھا
ہم میں یہ بات جُدا سے آئی
چاک کرتے تھے گریباں اپنا
روشنی بندِ قبا سے آئی
یہ ادا عشق و وفا کی ہم میں
اِک مسیحا کی دُعا سے آئی
آئی جو لہر نئی دل میں علیمؔ
اٰس کی بخشش سے عطا سے آئی
|