* نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے ¦ *
نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے پاس
اک عجب چھاؤں میں ہم بیٹھے رہے یار کے پاس
اس کی ایک ایک نگاہ دل پہ پڑی ایسے کہ بس
عرض کرنے کو نہ تھا کچھ لبِ اظہار کے پاس
یوں ہم آغوش ہوا مجھ سے کہ سب ٹوٹ گئے
جتنے بھی بت تھے صنم خانہ پِندار کے پاس
تم بھی اے کاش کبھی دیکھتے سنتے اس کو
آسماں کی ہے زباں یارِ طرحدار کے پاس
یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے
چل کے خود آے مسیحا کسی بیمار کے پاس
یونہی دیدار سے بھرتا رہے یہ کاسۂ دل
یونہی لاتا رہے مولا ہمیں سرکار کے پاس
پھر اسے سایۂ دیوار نے اٹھنے نہ دیا
آ کے اک بار جو بیٹھا تیری دیوار کے پاس
تجھ میں اک ایسی کشش ہے کہ بقول غالب
خود بخود پہنچے گلِ گوشۂ دستار کے پاس
تو اگر خوش ہے یہاں مجھ سے تو پھر حشر کے دن
ایک تیری ہی شفاعت ہو گنہگار کے پاس
****** |