* چھُو کے جب خواب سا بدن آیا *
چھُو کے جب خواب سا بدن آیا
شاخِ لب پر گُلِ سخن آیا
اس کے قامت پہ زیب دیتا تھا
جو پہن کر وہ پیرہن آیا
ہم اسے روز دیکھنے جائیں
آج کیا اس میں بانکپن آیا
رنگ تھے اس کے دیکھنے والے
جب بہاروں پہ وہ چمن آیا
ٹوٹ کر رہ گیا ہوں جب میں وہاں
خود گیا اور خود ہی من آیا
کوئی نغمہ نگار کیا جانے
میرے حصے میں جو وطن آیا
عبیداللہ علیم
|