* کُدورتوں کے درمیاں، عداوتوں کے در *
کُدورتوں کے درمیاں، عداوتوں کے درمیاں
تمام دوست اجنبی ہیں، دوستوں کے درمیاں
زمانہ میری داستاں پہ رو رہا ہے آج کیوں
یہی تو کل سنی گئی تھی قہقہوں کے درمیاں
ضمیرِ عصر میں کبھی، نوائے درد میں کبھی
سخن سراء تو میں بھی ہوں عداوتوں کے درمیاں
شعورِ عصر ڈھونڈتا رہا ہے مجھکو اور میں
مگن ہوں عہدِ رفتگاں کی عزمتوں کے درمیاں
ابھی شکست کیا کہ رسمِ آخری اک اور ہے
پکارتی ہے زندگی ہزیمتوں کے درمیاں
ہزار بُردباریوں کے ساتھ جی رہے ہیں ہم
مُحال تھا یہ کارِ زیست وحشتوں کے درمیاں
یہ سوچتے ہیں کب تلک ضمیر کو بچائیں گے
اگر یوں ہی جیا کریں ضرورتوں کے درمیاں
شاعر: پیرذادہ قاسم
|