* آرتی ہم کیا اُتاریں تیرے خد و خال ک *
آرتی ہم کیا اُتاریں تیرے خد و خال کی؟
بُجھ گئی ہر جوت، پُوجا کے سنہری تھال کی
جب کسی لمحے نے بھی رو کر پُکارا آپ کو
توڑ ڈالی عمر نے زنجیر، ماہ و سال کی
تُم تو کیا دستک نہیں دیتیں ہوائیں تک یہاں
دل ہے یا سنسان کُٹیا ہے کسی کنگال کی
پھر اُگانے دو یہاں ہم کو لہُو کے کچھ گُلاب
آپ نے تو شاہراہِ دل بہت پامال کی
سُرخ شعلوں کے سمندر سے نکالا ہے جسے
چاندنی ہے یا کوئی مچھلی ہوس کے جال کی
تو مقدّس آنکھ ہے یعنی حسین سُورج کی آنکھ
اور میں گہری گُپھا، وہ بھی کسی پاتال کی
پوچھتی ہیں پریم! چنڈی گڑھ کی اکثر لڑکیاں
آپ کے ہر شعر میں خُوشبو ہے کیوں بھوپال کی
|