* خوف و دہشت کا دھواں چاروں طرف *
(پروفیسر ایم۔ اے۔ ضیا(گیا
خوف و دہشت کا دھواں چاروں طرف
ایک نفرت کا ہے ماحول یہاں چاروں طرف
ہم تو پھولوں کو مسلنے سے بھی گھبراتے ہیں
ایک آہٹ پہ کلیاں بھی چٹک جاتی ہیں
بم و بارود کے ماحول میں جینا کیسا
خوف و دہشت کے
تیرے چہرے پہ پسینہ کیسا
آئو مل جُل کے کریں سامنا ہر دشمن کا
چاک دیکھیں نہ کبھی آپ کسی دامن کا
جو ڈراتے ہیں انہیں بھی تو ڈرایا جائے
ہم میں ہمت ہے بہت یہ بھی دکھایا جائے
کب تلک ہاتھ پہ ہم ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں
اور لہو بہتے ہوئے چپ یونہی دیکھا کریں
آئو مل جل کے یہ نفرت کو مٹائیں ہم لوگ
ایک ہیں، ایک ہیں، دنیا کو دکھائیں ہم لوگ
کس میں ہمت ہے کہ وہ آنکھ دکھائے ہم کو
کس میں ہمت ہے کہ اب ضرب لگائے ہم کو
ہم محبت کے پیمبر ہیں
امن اور شانتی اپنا ہے اصول
ہم کو نہ خوف دلائو
نہیں کمزور ہیں ہم
ہم تو دہشت کو زمانے سے مٹاڈالیں گے
ہم تو ظالم کا کبھی ساتھ نہیں دیتے ہیں
خون سڑکوں پر بہے یا کہ سلاسل پہ بہے
’’ خون پھر خون ہے
ٹپکے گا تو جم جائے گا
ظلم تو ظلم ہے بڑھتا ہے
تو مٹ جاتا ہے‘‘!
٭٭٭
|