* وعدۂ وصل کے ایفا سے پشیماں ہو کر *
وعدۂ وصل کے ایفا سے پشیماں ہو کر
وہ تصّور میں بھی آتے ہیں تو پنہاں ہو کر
شوقِ دیدار شہیدوں کو ہے کون ان سے کہے
سیر کو جائیں سوئے گورِ غریباں ہو کر
فاتحہ پڑھ کے میری قبر سے قاتل جو اٹھا
خاک اُڑ اُڑ کر لپٹنے لگی ارماں ہو کر
میں شبِ وعدہ تصور میں انہیں لے آیا
در پہ بیٹھے ہی رہے غیر نگہبان ہو کر
شمع تربت پہ میری دیکھ کے بے مونس و یار
پھول تا صبح چڑھاتی رہی گریاں ہو کر
رات بھر ڈر ہی رہا صبح کے ہونے کا قمرؔ
وصل کی رات کٹی ہے شبِ ہجران ہو کر
|