* اس میں کوئی فریب تو اے آسماں نہیں *
اس میں کوئی فریب تو اے آسماں نہیں
بجلی وہاں گری ہے جہاں آشیاں نہیں
صیاد میں اسیر کہوں کس سے حالِ دل
صرف ایک تو ہے وہ بھی میرا ہم زباں نہیں
تم نے دیا ہماری وفاؤں کو کیا جواب
یہ ہم وہاں بتائیں گے تم کو یہاں نہیں
سجدے جو بت کدے میں کئے میری کیا خطا
تم نے کبھی کہا یہ میرا آستاں نہیں
گم کردہ راہ کی مٹی نہ ہو خراب
گرد اس طرف اٹھی ہے جدھر کارواں نہیں
کیوں شمعِ انتظار بجھاتے ہو اے قمرؔ
نالے ہیں یہ کسی کے شہر کی اذاں نہیں
|