* یہ شبِ ہجر کہیں مار نہ ڈالے مجھ کو *
یہ شبِ ہجر کہیں مار نہ ڈالے مجھ کو
یا مرے پاس تو آجا ، یا بُلالے مجھ کو
خون ِ دل دے کے کیے میں نے دیے جو روشن
آج وہ بھیک میں دیتے ہیں اجالے مجھ کو
ایک ہی جا پہ کھڑا ہوں میں یوں صم بکم
کوئی گرداب محبت سے نکالے مجھ کو
تیری مسکان کی خاطر ہے مری جاں حاضر
ہے اگر تیری خوشی اس میں رُلالے مجھ کو
جسکی مخمور نگاہوں نے ہے مدہوش کیا
ہے یہ خواہش کہ وہی آ کے سنبھالے مجھ کو
عین ممکن ہے کہ سانسیں ہی بغاوت کردیں
کردیا تُو نے اگر میرے حوالے مجھ کو
میں نے مانا کہ نہیں وصل کے قابل آسی
پھر بھی ہاتھوں میں تُو چُوڑی سا چڑھا لے مجھ کو۔
***** |