* جھوٹا بھی نہیں ہے تو وہ سچا بھی نہی *
غزل
جھوٹا بھی نہیں ہے تو وہ سچا بھی نہیں ہے
اپنا سا وہ لگتا ہے پر اپنا بھی نہیں ہے
آتے ہیںکہاں سے بھلا پتھر مری جانب
اِس شہر میں دشمن کوئی میرا بھی نہیں ہے
وہ شخص عداوت پہ تلا رہتا ہے ہردم
ہوجائے کبھی دوست یہ لگتا بھی نہیں ہے
میں دھوپ کو اوڑھے ہوئے چلتی ہوں ہمیشہ
رستے میں مرے تو کہیں سایہ بھی نہیں ہے
یہ اونچی فصیلوں کی رکاوٹ جو ہے قدسی
ملنے کا تو رستہ نظر آتا بھی نہیں ہے
قدسیہ جمال
Nangah Mohalla
Bhadrak
(Orrisa)
Mob: 9777381528
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|