* خوف سے کھڑکی گرتی ہے در گرتا ہے *
غزل
٭………قربان آتش
خوف سے کھڑکی گرتی ہے در گرتا ہے
قدموں کی آہٹ سے اب گھر گرتا ہے
زخم ہمارا خشک نظر آئے کیسے
سر پر روز نیا اک پتھر گرتا ہے
تم کیا جانو درد بھری آنکھوں کا حال
دل کی ندی میں کیسے سمندر گرتا ہے
میرا گھر اب ہونے لگا جل تھل جل تھل
کس کی آنکھوں سے پانی جھرجھر گرتا ہے
سونے خلا میں ڈھونڈ رہا ہے کوئی پیڑ
اڑتے اڑتے زخمی کبوتر گرتا ہے
اب تو انوکھا ہی ہو گیا منظر آتشؔ
قطرہ شبنم دن میں برابر گرتا ہے
****** |