* میرے مرنے کی جو افواہ اُڑادی گئی ھ *
میرے مرنے کی جو افواہ اُڑادی گئی ھے
مُجھے لگتا ھے یہ جینے کی دُعا دی گئی ھے
سُنو ! اربابِ ادب!! یہ کوئی احسان نہیں
مُجھے مسند پہ مری اپنی جگہ دی گئی ھے
پھاند سکتا ھے کہاں اس کو عقیدہ میرا
ایسی منطق بھری دیوار اُٹھا دی گئی ھے
عقل کی چرخی تو موجود کُنویں پر ھے مگر
کیا نکلنا ھے اگر اُلٹی گُھما دی گئی ھے
ایسا لگتا ھے خدا کو کبھی دیکھا ھے کہیں
اور پھر بعد میں وُہ شکل بُھلا دی گئی ھے
ایسے اُڑتی ھے مری خاک خلا کی جانب
جیسے اس کو وھاں آنے کی صدا دی گئی ھے
بن پروں کے مَیں پرندہ ھُوں رضآ اور مُجھے
شش جہت میں اُڑے پھرنے کو فضا دی گئی ھے
****** |