* تیرے در پر جو یہ آنے میں مُجھے دیر ل *
تیرے در پر جو یہ آنے میں مُجھے دیر لگی
راہ سے خُود کو ھٹانے میں مُجھے دیر لگی
پھڑپھڑاتی ھُوئی بینائی جو اب قید میں ھے
اس پرندے کو گرانے میں مُجھے دیر لگی
میں اُبھر سکتا تھا اُس خوف کی گہرائی سے
جس کا اندازہ لگانے میں مُجھے دیر لگی
عشق نوکیلی چٹانوں کی طرح راہ میں تھا
جسم کو ساتھ چلانے میں مُجھے دیر لگی
خوف تھا کوئی شناسا نہ نکل آئے مرا
لہو چہروں سے ھٹانے میں مُجھے دیر لگی
بے پری ساتھ لگائے ھوئے رھتی تھی مُجھے
اس لئے خاک اُڑانے میں مُجھے دیر لگی
ھجر میں سیکھنا تھا میں نے گُزارا کرنا
زرد کو سبز بنانے میں مُجھے دیر لگی
وصل نے کرنا تھا مُجھ کو سو تہہ_ تیغ کیا
صبر کی ڈھال اُٹھانے میں مُجھے دیر لگی
******** |