* دَمَک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اُس *
غزل
٭……راجندر منچندا بانیؔ
دَمَک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اُس کا
ذرا سے لمس نے روشن کیا بدن اس کا
وہ خاک اُڑانے پہ آئے تو سارے دشت اس کے
چلے گداز قدم تو چمن چمن اس کا
وہ جھوٹ سچ سے پرے، رات کچھ سناتا تھا
دلوں میں راست اُتر گیا سخن اُس کا
عجیب آب و ہوا کا وہ رہنے والا ہے
مِلے گا خواب و خلا میں کہیں وطن اس کا
وہ روز ، شام سے شمعیں دھواں دھواں اس کی
وہ روز، صبح اجالا کِرن کِرن اس کا
مری نظر میں ہے محفوظ آج بھی بانیؔ
بدن کسا ہوا، ملبوس بے شکن اس کا
**** |