* مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے *
غزل
٭……راجندر منچندا بانیؔ
مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
اِک اور ذات میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مِری صدا نہ سہی، ہاں مرا لہو نہ سہی
یہ موج موج اچھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
جو میرے واسطے کل زہر بن کے نکلے گا
ترے لبوں پہ سنبھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
بدن کو توڑ کے باہر نکلنا چاہتا ہے
یہ کچھ تو ہے، یہ مچلتا ہوا سا کچھ تو ہے
یہ میں نہیں…… نہ سہی، اپنے سرد بستر پر
یہ کروٹیں سی بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مرے وجود سے جو کٹ رہا ہے گام بہ گام؎
یہ اپنی راہ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
جو چاٹتا چلا جاتا ہے مجھ کو اے بانیؔ
یہ آستین میں پلتا ہوا سا کچھ تو ہے
|