* ہر قدم پر آئینہ خانہ بنایا جائے گا *
غزل
رمز عظیم آبادی
ہر قدم پر آئینہ خانہ بنایا جائے گا
شہر کے لوگوں کو دیوانہ بنایا جائے گا
دے برہمن جام شیخ محترم ہنس کر پیئں
اب وطن میں ایسا میخانہ بنایا جائے گا
کیا خبر تھی مجھ کو ارباب ہوس کی بزم میں
اے محبت تیرا فسانہ بنایا جائے گا
اس لئے ہے فصل گل میں شمعِ عارض بے نقاب
باغ میں پھولوں کو پروانہ بنایا جائے گا
شہر یہ پتھر کا ہے ہر آدمی پتھر کے ہیں
رنج و غم سے دل کو بیگانہ بنایا جائے گا
فصلِ گل میں غسل فرمائے گی توبہ رمز کی
خاکِ کعبہ لاکے پیمانہ بنایا جائے گا
٭٭٭
|