* جب ٹوٹا تمنائوں کا شیشہ مرے آگے *
غزل
جب ٹوٹا تمنائوں کا شیشہ مرے آگے
میرا ہی سراپا تھا جو بکھرا مرے آگے
اے دیدۂ گریہ مجھے اِس بات کا ڈر ہے
ہوتا ہے مرے غم کا تماشہ مرے آگے
اک آگ کا دریا ہے محبت کے سفر میں
ڈوبا ہے امیدوں کا سفینہ مرے آگے
نایاب تھا پلکوں کے لئے جو کہ شبِ غم
پایاب ہے وہ اشکِ تمنا مرے آگے
یہ تشنہ لبی تو مری تقدیر ہے شاید
دریائے طلب کیوں ہوا رسوا مرے آگے
راشدہ باقی حیا،
60-61, Nawab Road
Basti Harphool Singh
Sadar Bazar
Delhi-110006
Mob: 9350366562
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|