* تھا وہ ہجوم بس میں کہ دم گھٹ کے رہ گی& *
رضا رام پور
کہمن
انسانیت کی موت
منظر:
تھا وہ ہجوم بس میں کہ دم گھٹ کے رہ گیا
دفتر مجھے پہنچنا تھا ، ہر چیز سہ گیا
سورج کی وہ تپش تھی برے سب کے حال تھے
بچے، جوان، بوڑھے سبھی تو نڈھال تھے
تھے اِک ضعیف نوے برس کے وہاں کھڑے
چکرا کے گرتے گرتے کئی بار وہ بچے
کوئی جوان سیٹ نہیں چھوڑ کر اٹھا
یک دم وہ پیرِ زال گرا اور مر گیا
کہمن:
ہمدردی اور خلوص کی رسوائی کیوں نہ ہو
بدنام اہلِ علم کی دانائی کیوں نہ ہو
کرتے نہیں جو اپنے بزرگوں کا کچھ خیال
ہوں گے وہ جب ضعیف تو ہوگا یہی معال
٭٭٭
|